ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت کیوں بڑھ گئی

 کالم نگار (محمد ناصرزیدی ،لاہور) میڈیا انڈسٹری سے وابستہ دوستوں کیلئے یہ خبر افسردہ اورمایوس کردینے والی تھی کہ حال ہی میں سیالکوٹ کے کچھ سرمایہ داروں کی جانب سے مارکیٹ میں لانچ کیاجانےوالا چینل ٹیلن نیوزاچانک بندکردیاگیا،آپ نیوزکے بعد یہ دوسراچینل ہے جسے مالکان نے اچانک بندکردیا،،2018 میں آپ نیوزکی بندش سے سیکڑوں میڈیاکارکن بیروزگارہوئے ،،سیکڑوں گھروں کے چولہے بجھ گئے۔بڑے اینکرزتوپھرکسی دوسرے چینل پرجاکربیٹھ گئے لیکن ورکنگ جرنلسٹ کیلئے سردست کوئی جگہ نہ بن پائی اور دوستوں نے کئی کئی ماہ تک بیروزگاری کاسامناکیااور انتہائی دکھ اور پریشان کےحالات سے گزرے۔میڈیا کےدوست آج بھی آپ نیوز کے بندہونےکےبعد پیداہونےوالے حالات کاخمیازہ بھگت رہےہیں ۔۔

سچ بات تویہ ہےچینلز کسی صورت بندنہیں ہونے چاہئے،،آپ نیوزکےبعد یہ دوسراچینل ہے جسے بندکردیاگیاہے،،آپ نیوزکے اورمسائل تھے لیکن یہاں سب کچھ اوکے تھا،،اچانک ہی یہ فیصلہ کیاگیا

سرمایہ دارکیلئے اپنے منصوبے کوبندکرنا،،بالکل ہی لپیٹ دینا بہت مشکل ہوتاہے ،،پتہ نہیں کروڑوں اربوں لگانے کےبعد سرمایہ دار، یامالکان اسے بندکرنے پر کیسے اآمادہ ہوجاتےہیں۔میرامانناہے کہ اگرچینل کوبند نہ کیاجائےاوراسے مختلف طریقوں سے چلایاجائےتومالکان کوکچھ نہ کچھ حاصل ہوتارہتاہے ِ چینل میں ڈاون سائزنگ عام روٹین ہے اس کےذریعے چینل کو رواں رکھاجاسکتاہے، کسی دوسری پارٹی کوفروخت کیاجاسکتاہے،،چینل کو ڈیجیٹل میڈیا کی شکل میں زیادہ استعمال کرکے کمائی کی جاسکتی ہے ، بندنہیں کرناچاہیے ،، کیپٹل والے اب ڈیجٹل ہوکراچھاخاصاکمارہےہیں ،،مطلب بند نہیں ہوئے بس میڈیم بدل لیاہے اور کچھ نہ کچھ کررہےہیں ،،یقین کریں اس وقت بہت سارے چینلزڈیجیٹل میڈیا پربہترین خبریں اور مواد دے کر سیٹلائٹ ٹرانسمیشن سے زیادہ کمارہےہیں ،،آنےوالےدنوں میں یہ بزنس ماڈل زیادہ مقبولیت اختیارکرےگاکیونکہ اس سے ایک تو ڈالرزآتےہیں سیٹھ کی جیب میں دوسرا یہ کم خرچ بالانشین ہے،،یہاں کم سٹاف سے کام چلایاجاسکتاہے ،،نیوزچینل کے سٹاف کوبھی اگراس کام پرلگادیاجائے توسونے پہ سہاگاہوجائے،کیونکہ نیوزروم میں کام کرنےوالے صحافی خبرکی اہمیت ، تاثیر،،تعبیر اور مار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ،،بس اسے کڑاکے داربنانے کی ضرورت ہوتی ہے جس کیلئے ایک اچھاکاپی ایڈیٹرکافی ہوتاہے

قصہ مختصر ،اربوں روپے لگاکر نیوزچینل شروع کرنےوالے مالکان کو چینل بندکرنے سے پہلے سوبارسوچنا چاہئے بنیادی طورپر اپنے سرمائے کاتحفظ ا ن کی اولین سوچ ہونی چاہیےجو کہ ان کاحق بھی ہے لیکن اس کےساتھ ساتھ ورکرزکی بہبود،خاندانوں کے تحفظ اور صحافیوں کے مستقبل کی سوچ بھی پیش نظر رہنی چاہئے،

ایک سوچ یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے دورحکومت کے آتےہی میڈیاپر براوقت شروع ہوگیاتھا،،لگتاہے ن لیگی حکومت بھی اسی طرزحکومت کو اپنانا چاہتی ہے،،اصل میں پس پردہ طاقتیں عمران کےدورمیں بھی میڈیا سے نالاں تھیں اور اب بھی ہیں ،حالانکہ اس وقت پورامیڈیا سرنگوں ہوچکاہے،،،ہتھیار ڈال چکاہے۔۔۔۔بھائی لوگوں کو مائی باپ مان چکاہے۔۔۔۔لیکن لگتاہے وہ میڈیا کا ساراڈنک اور ہوا نکالنا چاہتےہیں ،،اس کیلئے ورکنگ جرنلسٹ کو سب سے زیادہ بھگتنا پڑےگا۔

اللہ کریم سب کیلئےآسانیاں پیدافرمائے ٹیلن نیوزکے مالکان نے یہ بھی نہیں سوچا،رمضان ہے،،لوگ بیروزگارہوجائیں گے،،آگےعید بھی ہے ،،کچھ توخوف خداکرناچاہئے،،سب کچھ پیسہ ہی نہیں ہوتا،،اخلاقیات، شرم وحیا،،اور روایات بھی کسی شے کانام ہے۔۔۔افسوس کہ یہ سب اچھائیاں ہمارے معاشرے سے اٹھتی جارہی ہیں ۔۔۔۔۔تنخواہ دارطبقہ سب سے زیادہ متاثرہوتاہے۔۔

اس صورتحال میں میڈیا کےدوستوں کے ایک گروپ میں ہونےوالی ڈسکشن میں صورتحال کےحوالےسے صحافی دوستوں نے مختلف تجاویز پیش کیں ،،یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے میڈیا سٹڈیزکےاستادڈاکٹر عاطف اشرف اس صورتحال پرکہتے ہیں ۔۔افسوس ناک خبر ہے اور مستقبل میں بھی کوئی امیدیں نہیں ہیں، ہمیشہ الیکشن کے بعد ایسا مشکل وقت آتا ہے۔ صحافیوں پر یہ لازم ہے کہ آپس میں مل کر اپنے لئے خود کام کریں، ڈیجیٹل میں آئیں سیٹھ سے آزادی حاصل کریں ، بڑی امید ہے کہ کم از کم ڈیجیٹل پر سب کو برابر موقع ملتا ہے۔ اللہ سب کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور تمام بے روزگاروں کو ایسا روزگار دے کہ کسی سیٹھ کی محتاجی نہ کرنی پڑے

24نیوزسےتعلق رکھنےوالے سینئر صحافی افتخار رامے نے ساراملبہ حکومت پر ڈالے جانے کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں ہر کام ن لیگ کےکھاتے میں ڈالنے کا چلن عام ہوچکاہے حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا چینل کی بندش سے کوئی تعلق نہیں ،،کیونکہ یہ خبربھی گردش کررہی ہے کہ چینل مالکان کا رجحان گزشتہ برسراقتدارجماعت سے تھااس لئے موجودہ حکومت سے کسی رورعایت یا بزنس نہ ملنے کے خدشے کےپیش نظر انہوں سے چینل کو ٹھپ کردیا،،دوست کاکہناتھا،،، مالک کے پیسے نہیں ہیں چینل چلانے کے ، ٹیم اچھی نہیں ہے ، اشتہار نہیں مل رہے۔۔اس لئے اسے بندکردیا،،

اس موقف پر ہماراجواب یہی ہے کہ حالات جوبھی ہوں ، صورتحال جیسی بھی ہو،،چینل بندکرنا کہاں کا حل ہے،،

ہانڈی نہیں پک رہی تواس کےلوازمات پورے کرتے ہیں ، آگ تیزکرتےہیں مرچ مصالحہ پورارکھتےہیں ،،ناکہ ہانڈی کو اٹھاکر بیچ چوراہے پھوڑ دیتےہیں ،،،اس مالک کے دیگرکاروبار چیک کریں وہ توبہترین چل رہےہیں ،،کئی بار اپ ڈاون بھی ہواہوگا،وہ کاروبارتوبند نہیں کئے ،،بلکہ انہیں رواں دواں رکھنے کیلئے ہرممکن ہاتھ پاوں مارے گئے،،،توپھریہاں کیامصیبت آن پڑی جو اچانک چینل بندکرکےگھرکوچل دئیے

سما نیوز سے تعلق رکھنےوالے سینئر صحافی عاصم حمید کےمطابق الیکشن کے بعد یہ فیز آنا ہی ہوتا ہے خدشہ ہے کچھ اور چینل بھی ڈاؤن سائزنگ پر جا سکتے ہیں،،ٹیلن نیوز نے بند کرنے سے پہلے بڑی کوشش کی کہ چینل کو فروخت کردیا جائے مگر پوسٹ الیکشن ماحول کی وجہ سے اچھے پیسے نہیں مل رہے تھے اس وجہ سے مالکان نے چینل بند کر دینا ہی بہتر سمجھا

ڈسکشن میں ڈیجیٹل میڈیا کاذکر چھڑاتوبات چل نکلی اس لامحدود دنیامیں کیسے داخل ہواجائے،،ہم ڈیجیٹل میڈیا ،کابڑا شورمچاتے ہیں ،،لیکن اس کو کیسے جوائن کیاجائے،،شروع کہا ں سے اورکیسےکیاجائے،،ایک کاپی ایڈیٹر، ایک اسائمنٹ ایڈیٹر،،ٹکرآپریٹر،،نیوزپروڈیوسرکیسے ڈیجیٹل پرجاسکتاہے ،ڈاکٹرعاطف اشرف ،سینئر صحافی علی ریحان ، نے اس موضوع پر تفصیلی اظہارخیال کرتے ہوئے کہا ہے ڈیجیٹل میڈیا میں کمائی کےحوالےسے سب سے بہترین ٹول ٹویٹر ہے جہاںسب ٹویٹ، تصویر، بلاگ، ویڈیو، سب سے پیسہ کماسکتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو اس کا پیمنٹ سسٹم یہاں ورک نہیں کرتا، لیکن کچھ لوگ جگاڑ کرکے یہاں بھی اس سے پیسے کمارہے ہیں، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ٹویٹر چلتا ہی نہیں۔۔اوریہی اصل اورحقیقی مسئلہ ہے ایک چیز بہترین متبادل ہے اور پاکستان میں اس پر ایک ماہ سے پابندی ہےاوریہ پابندی آئندہ مستقبل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔میٹا ورس یعنی فیس بک اور اس کی ایپس زیادہ ڈیٹا چور ہے، یوٹیوب کا معیار خاصا کڑاہے،،شرائط وضوابط اتنے سخت ہیں کہ انہیں پورے کرتے کرتے لوگوں کی لسی نکل جاتی ہے، اور ان تمام پلیٹ فارمز کے لیے جس طرح کا کانٹینٹ پروڈیوس کرنا ہے وہ سب ایک جگہ پر کرکے پیسے کمانا آئیڈیل ہے، ہاں کانٹینٹ جب بنایا ہی جارہا ہے تو باقی پلیٹ فارمز سے بھی پیسے کمائے جائیں،یہ ایک اچھی تجویز تھی کہ جینوئن کانٹینٹ تخلیق کرکے اسے مختلف پلیٹ فارم پرپیش کیاجائے اور روزی روٹی کمائی جائے

ساتھی کولیگ فرحان ظفرکی رائے تھی جنہوں نے پیسے کمانے ہیں وہ پاکستان میں بیٹھ کر ایک وقت میں یو ٹیوب ، فیسبک ، انسٹا گرام ، ٹویٹر ، ٹک ٹاک سے ایک جیسے کانٹینٹ سے پیسے کما رہے ہیں ،،، ڈیجیٹل پر جتنا کام کرو اتنا تھوڑا ہے،،فرحان ظفرایک یوٹیوب چینل پرکام کررہےہیں،،انہوں نے مزید تجاویز دیں کہ یو ٹیوب پر کام کریں ،،، دو تین باتیں ذہن میں رکھیں کہ آپ کا کانٹینٹ ایسا ہو کہ اگر 5 سے 8 منٹ کی ویڈیو ہو تو ایوریج 2 منٹ ویڈیو دیکھی جائے ، کانٹینٹ مکمل طور پر آپ کا اپنا ہو ،،، اب ٹائٹل اور ٹیگز کا بھی مسئلہ نہیں رہا ،،، صرف تھمب نیل اچھا ہو ،،، کانٹینٹ روٹین سے اپلوڈ کریں ،،، ایک ڈیڑھ سال تک انکم کا نہ سوچیں ،،، صرف سبسکرائبرز دیکھیں ،،، یو ٹیوب آپ کا چینل خود ہی چلا دے گی

میری رائے یہ تھی یوٹیوب چینل وغیرہ سے ہٹ کر ،،میں نے لنکڈان پرایسی درجنوں جابزدیکھی ہیں جن سے صحافی دوست پیسے کماسکتےہیں ،،وہاں جابزآفرکی جاتی ہیں کانٹینٹ رائٹرزکی جاب ہم لوگ آسانی سے کرسکتےہین،،آرٹفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے تخلیق ہونےوالا تحریری مواد بکنا بندہوگیاہے،،اس پر پابندیاں لگناشرو ع ہوگئی ہیں ،،تو لکھنا ہماراکام ہےہم لکھ کر کماسکتےہین،،انگلش، اردو، پنجابی ،

اسی طرح وائس اووربھی کیاجاسکتاہے،،سب ٹائٹلنگ بھی ایک کام ہے،،،سب سے زیادہ ان دنوں ویڈیو ایڈیٹنگ کی ڈیمانڈ ہے ،،ٹی وی اور موبائل ،،ہرسکرین پر چلنےوالی ویڈیو،،ویڈیوایڈیٹنگ کےمرحلے سے گزرکرآتی ہے اور اس کام کیلئے ویڈیو ایڈیٹر ضروری ہے ہربندہ ویڈیو ایڈیٹ خود سے نہیں کرسکتا،،

پروفیشنل ویڈیو ایڈیٹرزکی بڑی ڈیمانڈہے آپ لوگ دفترمیں ہی بیٹھ کرکچھ وقت ویڈیوایڈیٹنگ سیکھیں ،دو ، تین ، ماہ ، زیادہ سے زیادہ چھ ماہ بعد،،آپ کچھ نہ کچھ کرنا سیکھ جائیں گے اس کےبعد لنکڈان پرجائیں وہاں سرچ کرتے رہیں اپلائی کرتے رہیں ۔۔

آپ کو کوئی نہ کوئی ریسپانس لازمی مل جائےگا

ویڈیوایڈیٹنگ سے یہ فائدہ ہوگاآپ خودبھی اپنا چینل بناسکیں گے ،اسے بناسنوارکر،،،مارکیٹ کے مزاج کےمطابق چلاسکیں گے،،اور ایک نہیں کئی چینلزچلاسکیں گے،،اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔۔

آن لائن بزنس سے وابستہ ہمارے صحافی دوست حافظ ثاقب کا اس حوالےسے تجزیہ کافی حوصلہ افزاتھا،،انہوں نے کہا کہ .. یوٹیوب چینل بھی 2 سال تک کسی قسم کی کمائی نہیں دے گا.. تجویزہےکہ دوست صحافت کے ساتھ ساتھ کاروبار کے میدان میں بھی کام کرنے اور کمانے کی کوشش کریں… بزنس کیلئے کوئی آئیڈیا سوچیں ، مارکیٹ دیکھیں اور پروڈکٹ بیچنا شروع کریں..اپنی نہ سہی کسی کی پروڈکٹ سیل کریں ،مارکیٹنگ کریں پرافٹ لیں یا مارجن ،،مجھے یقین ہےایک سال کے اندراندرآپ مالی پریشانیوں سے نکل جائیں گے،،اور بھرپور بزنس کررہےہوں گے

سینئر سپورٹس صحافی محمد احمد رضا نے صورتحال پرکچھ یوں تبصرہ کیا،،مجموعی طور پر بری خبر ہے۔اللہ تمام متاثرین کو عید سے پہلے متبادل روزی کا بندوبست فرمائے۔لیکن دیکھا جائے تو چینل 5 پنجاب ٹی وی ٹائپ جیسے اداروں سے تو اچھا ہی رہا ٹیلن کہ 10 ۔10 ماہ تک بنا تنخواہ کے کام نہیں کرایا ورکرز سے۔ ورنہ چھوٹے چینل کے ورکرز کو تو ہر چھ سات ماہ بعد ایک آدھی تنخواہ ہی نصیب ہوتی ہے

علی میو کےمطابق سے وہ کئی برسوں سے دوستوں سے کہہ رہے ہیں کہ ضروری نہیں آپ صحافی ہیں تومرتے دم تک صحافی ہی رہناہے،،بدلتے حالات کے پیش نظر ہم سب کو دوسرا روزگار پارٹ ٹائم کے طور پر دیکھنا چاہئے،، اس میں آپ کی ذات کے سوا کوئی دوسرا رائے نہیں دے سکتا کہ آپ کو کونسا کام سوٹ کرتا ہے۔ آپ اگر اچھے موچی بن سکتے ہو تو بن جاو اچھے برگر بنا سکتے ہو لگا لو۔ٹیوشن پڑھا سکتے ہو کوئی آن لائن برنس کرسکتے ہو۔ یہ آپ نے طے کرنا ہے ۔

سب دوستوں کو مشورہ ہے میڈیا کے بھروسے پر نہ رہیں۔ اتنے سخت پریڈ کے بعد 1 ۔2 سال سے اچھا پریڈ آیا ۔اللہ نہ کرے پھر برا آسکتا ہے

چینل میں ہی کام کرنےوالے معروف صحافی اور مزاح نگار گل نوخیز اختر نے اس معاملے کا دوسراپہلو بھی اپنے ایک کالم کےذریعے پیش کیا،،انہی کی زبانی تصویر کادوسرارخ جانتے ہیں وہ لکھتے ہیں ۔۔ کوئی شک نہیں کہ یوسف بیگ مرزا نے ٹیلن نیوز کو یوں ڈیزائن کیا کہ حیرت انگیز طور پر ہم ریٹنگ میں ٹاپ ٹین چینلز میں آگئے۔پورے ملک میں ہماری ٹرانسمنشنز دیکھی جارہی تھیں۔ سب کچھ بہترین چل رہا تھا لیکن اسی دوران مالکان کو تین احساس دامن گیر ہوئے۔پہلا یہ کہ کروڑوں جارہے تھے اور لاکھوں آرہے تھے۔یاد رہے کہ یہ کروڑوں روپے جو چینل پر لگ رہے تھے ان میں سٹاف کی تنخواہیں، بجلی کا بل، کھانے کا خرچہ، سیٹلائٹ کا خرچہ، کیبل والوں کا بھتہ، پٹرول کا خرچہ اور اسی طرح کے دیگر اخراجات شامل تھے۔ یہ وہ اخراجات ہیں جو بہرصورت آنے ہی آنے ہوتے ہیں۔سیٹلائٹ چینل کوئی چھوٹا کام نہیں ہوتا۔چینل کا میکنزم یہ تھا کہ ہر خرچہ پہلے بجٹ کی صورت ڈپارٹمنٹ ہیڈ سے منظور ہوتا، پھر ایم ڈی کے پاس جاتا، پھر فنانس مینجر کے پاس اور پھر چوہدری سلیم بریارصاحب کے پاس۔ کوئی ضروری چیز درکار ہوتی تو پروکیورمنٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس بجٹ جاتا جو کیش کی بجائے وہ چیز خرید کر متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے حوالے کر دیتی۔مالکان کو دوسرا احساس یہ ہوا کہ جن لوگوں کے خلاف خبر لگتی ہے وہ شکایت کرنے لگے ہیں اور یوں تعلقات بلاوجہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔تیسرا احساس یہ تھا کہ کیا لوگوں کے خلاف باتیں کرکے ہی چینل چلتا ہے؟۔ اب یہ ایک خالصتاً نیوز سینس کا معاملہ تھا۔ بدقسمتی سے ایسا ہی ہوتاہے۔ ہر چینل ایک لائن لیتا ہے اور پھر اُسی ایڈیٹوریل پالیس پر چینل چلایا جاتا ہے۔ آپ اسے ٹھیک کہیں یا غلط لیکن نیوز چینل عوامی مزاج کی رنگ بازیوں سے ہٹ جائیں تو ریٹنگ نہیں آتی، ریٹنگ نہ آئے تو اشتہار نہیں ملتے اور اشتہار نہ ملیں تو چینل نہیں چلتا۔سو پہلے یہ طے پایا کہ اخراجات کم کرنے کے لیے سٹاف اور بھاری معاوضے والے اینکرز کو کم کیا جائے۔بیگ صاحب چونکہ بھاری معاوضے والے اینکرز کو رکھنے کی ڈیل میں شامل نہیں تھے لہذا انہوں نے پورا زور لگایا کہ کسی کو نہ نکالا جائے لیکن بات بگڑتی جارہی تھی۔ یہ ایک انتہائی مشکل فیصلہ تھا لیکن کرنا پڑا۔ ٹیلن نیوز نے ہمیشہ تنخواہ ٹائم پر دی اور بغیر نوٹس نکالے جانے والوں کو ہمیشہ ایک ماہ کی ایکسٹرا تنخواہ بھی دی۔تو ہوا یوں کہ اخراجات کم تو ہوگئے لیکن بہت کم نہیں ہوسکے، اسی دوران سٹاف کو چینل کی طرف سے دیا جانے والا کھانا بند کرکے بھی اخراجات کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کچھ عرصے بعد پھر اسی معاملے نے سر اٹھا لیا۔ لیکن معاملات ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔ مجبوراً پھر ڈاؤن سائزنگ کرنا پڑی۔ سلیم بریار صاحب رکھ رکھاؤ والے انسان ہیں، انہیں لگنے لگا کہ سیٹلائٹ چینل لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا باعث ہوتے ہیں۔ چونکہ پہلے اُنہیں ایسا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لیے اُن کی نفیس طبیعت پر یہ گراں گذرنے لگا اور وہ خود بھی بیمار ہوگئے۔بالآخر یہ طے ہوا کہ چینل بند کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ آج سے تین ماہ قبل ہوا تھا لیکن بیگ صاحب اس کے حق میں نہیں تھے۔اُنہیں سٹاف کے ایک ایک فرد سے لگاؤ تھا۔چینل بھرپور مقبولیت حاصل کر رہا تھا لیکن حالات پلٹا کھاتے جارہے تھے۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ چینل بند کردیا جائے۔یہ ارادہ سلیم بریارصاحب نے جس دل سے کیا اُسے میں ہی جانتا ہوں۔پچھلے تین ماہ سے اُن کی بھرپور کوشش رہی کہ چینل کسی کو فروخت کر دیا جائے تاکہ سٹاف کی نوکریاں لگی رہیں۔بہت سی پارٹیوں سے بات چیت ہوئی لیکن کہیں بھی ڈن نہ ہوسکا۔چینل کے اختتام کا مرحلہ آن پہنچا۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ یہاں تک پہنچنے کی کہانی بہت دردناک ہے، خود چوہدری سلیم بریارصاحب اسے بند کرنے کا اظہار کرتے اور پھر خود ہی رُک جاتے۔ میری روز اُن سے بات ہوتی تھی۔اُن کی تکلیف اُن کے لہجے سے عیاں تھی۔میں نے اُنہیں شدید ڈپریشن میں دیکھا ہے۔میرا شو ختم ہونے کے بعد وہ مجھے اپنے آفس میں بلا لیتے اور رات دو دو بجے تک ڈسکشنز کرتے رہے۔

 بہرحال……12 مارچ کو ٹیلن نیوز بند ہوگیا۔ تمام ڈپارٹمنٹس بند کردیے گئے……نیوز روم کی بتیاں گل ہوگئیں، سکرین آؤٹ ہوگئی۔ تمام سٹاف کو آج 13 مارچ کو پندرہ دن کی تنخواہ اور ایک ماہ کی ایکسٹرا تنخواہ ٹرانسفر ہوجائے گی۔ایک خوبصورت دور اختتام پذیر ہوا۔ لیکن اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔ سب دُکھی ہیں

نوٹ:ٹیلن نیو زچینل الحمد اللہ پھرسے اپنی نشریات کاآغازکرچکاہے نئی مینجمنٹ اور نئے جوش وجذبے کےساتھ ۔میں دعاگوہوں کہ میڈیا دن رات ترقی کی منازل طے کرےاور صحافی کمیونٹی کی روزی روٹی کا سلسلہ جاری وساری رہےآمین